عید قربان ۔ ۔ ۔ خوشیوں بھرا تہوار جو ماتم میں بدل گیا

دو اہم خبریں اس عید پر نظروں سے گزریں۔ اور دونوں ہی خوشیوں کو ماتم میں بدلنے والی خبریں تھیں۔
۱۔ جہلم کے نزدیک ایک جج صاحب اپنے دو جواں سال بچوں اور سالے کے ہمراہ ایک ڈیم میں ڈوب کر جاں بحق
۲۔ گوجرانوالہ کی ایک ہاوسنگ سوسائیٹی میں ایک کار میں سے چار نوجوان لڑکوں کی نعشیں برآمد۔

اب یہاں پر پہلی خبر کی طرف جائیں تو جہاں پر ہمارا دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے کہ ایک جج جیسا سمجھدار بندہ اور انکے ساتھ انکا سالا، کیسے ڈیم میں اترنے کی بیوقوفی کر سکتے ہیں؟ وہیں پر چند سوالات ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔
جج صاحب کو آخر ضرورت ہی کیا آن پڑی کہ وہ عقل و دانش کے تقاضے بالائے طاق رکھتے ہووے ڈیم میں اتر گئے؟
جب وہ ڈیم کے پانی میں اترنے لگے تو کیا انکے ساتھ حفاظت پر معمور عملہ کوئی نہیں تھا؟
اور اگر تھا تو وہ عملہ اس وقت کہاں گیا؟
کونسے ایسے اسباب تھے جن کی بدولت وہ پانی میں اتر گئے؟
کیا اس میں کوئی سازش تو نہیں ہے؟

پبلسٹی پر ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ہمارا حال کچھ تسلی بخش نہیں ہے۔

اب بڑھتے ہیں دوسری خبر کی طرف
چار نوجوان لڑکوں کی ہلاکت کا معاملہ
پولیس کی ابتدائی معلومات کے مطابق یہ آئس کا نشہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اینٹی نارکوٹکس فورس، پولیس، اینٹیلجنس ادارے بہت چوکس رہتے ہیں۔ کیا ان نشہ بیچنے والوں کو کریک کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے؟ کیا جس ماں کے دونوں جوان بیٹے اس دنیا سے چلے گئے، اس ماں کو دلاسہ دے سکے گا کوئی؟ ہمارے نوجوان ہمارا، پاکستان کا مستقبل ہیں۔ ہمارے مستقبل کو کون بچائے گا۔ ان درندوں کے ہاتھوں سے؟
اس باپ کی تو دنیا ہی اجڑ گئی جس کے دو جوان بچے اس دنیا سے چلے گئے۔ ہم میں سے کون اس باپ کا اسکے بڑھاپے میں سہارا بنے گا؟ میں، آپ یا ریاست ؟

لاتعداد اموات ہمارے ہاں محض تفریح کی خاطر پانی میں اتر کر موت کو گلے لگانے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ کیا اسکا کوئی نظام نہیں بنایا جا سکتا؟ جس سے ایسی اموات سے بچا جا سکے۔ اور اگر ایسا کوئی نظام موجود ہے تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا ہے؟ اسکا ذمہ دار کون ہے؟ اسی طرح چاروں نوجوانوں نے اگر نشہ کیا اور اس وجہ سے دنیا سے چلے گئے، تو کیا ہمارا نظام اتنا کمزور ہے کہ انکو نشہ آوور اشیاء بیچنے والوں کو سزا نہیں دی جا سکتی ہے؟

ہمارا تعلیمی نظام اپنے طلبا کو کیوں ان چیزوں سے بچانے میں قاصر ہے؟ ہمارے سکولز، کالجز، یونیورسٹیز، دیگر تعلیمی ادارے کب تربیت پر زور دیں گے؟ والدین کب اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنے کے قابل ہونگے؟ بحیثیت مجموعی، بطور معاشرہ ہم کب شعور کو پہنچیں گے اور کب اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے قابل ہونگے؟

اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں لازمی کیجئے گا۔ شکریہ
زرتاشیہ زریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× How can I help you?